گزری جو قتل گاہ سے زینب جگرفگار
آنکھیں لہو لہو تھیں بدن پر غموں کا بار
لاشوں کو دیکھ دیکھ کے روتی تھی زار زار
کہتی تھی جلد آئیے یا شاہ زولفقار
کیسے بتاوں کیا میرے دل پر گزر گئی
لاشے پہ بے وطن کے جو میں ننگے سر گئی۔
غربت میں قتل ہوگیا مظلوم بے وطن
میں بھائی بھائی کہتی تھی لاشہ بہن بہن۔
۔ تیروں پہ تھا رکھا ہوا لاشہ حسین کا
ڈوبا ہوا لہو میں تھا کرتا حسین کا
آواز تھی حسین کی بہنا کفن کفن۔
۔اک دل پہ داغ میں نے بہتر اٹھا لیے۔
کچھ داغ میں نے قلب کے اندر چھپا لیے۔
چھپتے نہیں چھپانے سے داغ رسن رسن۔
03۔ بابا حسن سے تا بہ حسین شہید تک
بابا امیر شام سے دور یزید تک
لوٹا ہے اہل شام نے بابا چمن چمن۔
۔ آئی نہ راس دو گھڑی پردیس کی فضا
کنبہ شہید ہوگیا میرا گھر اجڑ گیا۔
پر دیس دیس غیر کا اپنا وطن وطن۔
۔ بر چھی کلیجہ علی اکبر میں جب لگی
بابا کو دی صدا کبھی آواز مجھ کو دی
کہتا تھا سینہ تھام کے اماں چبھن چبھن۔
۔ قاسم کی لاش لائے تھے دامن میں شاہ دین۔
سہرے سے بے نیاز تھی نوشاہ کی جبیں۔
اک شب بھی رہنے پائی نہ جس کی دلہن دلہن۔
۔ یہ نوکری بھی خوب ہے ریحان اور رضا
بھائی کی نوکری کا بہن نے دیا صلہ
ہاں وہ بہن یہ نوحہ تھا جس کا سخن سخن۔
----------
0 Comments